دین اسلام کا معاشی تصور 91

 


دین اسلام کا معاشی تصور


اسلام کوادیان عالم میں یہ خصوصی مقام حاصل ہے کہ یہ الہامی ادیان میں آخری کامل اور جامع دین ہے ۔اس میں دنیاوی اور روحانی اعمال کی تفریق کوختم کر کے معیشت اور اکل حلال کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلام کا نظام معیشت نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے یہی وجہ ہے کہ آج سامراجی اور سرمایہ داری نظام لڑکھڑا کر تباہی کے کنارے تک پہنچ چکا ہے اور خصوصا بینکاری عالمی طور پر کنگالی کا شکار ہورہی ہے ،اسلام کے معاشی اصولوں کے تصور پر قائم ادارے نہ صرف مستحکم ہیں بلکہ ان کی مانگ میں گزشتہ بیس سالوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔اگر چہ ان اداروں کے بہت سے امور ایسے ہیں جن میں شرعی اصولوں سے فی الواقع مطابقت کے لئے اصلاح کی ضرورت ہے مگر پھر بھی ان کے اثاثے دیگر اداروں کے مقابلہ میں نہ صرف اضافہ پذیر ہیں بلکہ محفوظ ترین شمار کئے جاتے ہیں ۔

اس عملی تجربہ کے نتیجہ میں یورپ اور امریکہ میں غیر مسلم بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہور ہے ہیں کہ اسلامی معاشی ادارے خواہ وہ بینک ہوں ، تکافل کے دارے ہوں یا صارف کمپنیاں ،سماجی معاشی اداروں سے زیادہ متحکم اور منافع بخش ہیں۔ لیکن اہل اسلام کو ابھی تک اپنی گدڑی میں پڑے ہوئے لعل و جواہر کا  علم ہے اور نہ طلب و خواہش ۔ قرآن کریم ہر مسلمان گھر میں ایک سے زائد نسخوں کی شکل میں پایا جاتا ہے لیکن کتنے ذہن وقلب ہیں جو اس کی معاشی تعلیمات سے آگاہ ہوں اور کتنے نفوس ہیں جوان تعلیمات کو آج کے دور میں نافذ العمل کرنے کیلئے آمادہ ہوں ، کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ جب تک کسی معاشرہ کے معاشی اور مالی معاملات مناسب اصول وضوابط کے پابند نہ ہوں تب تک اس معاشرہ کی منصفانہ تقلیل ممکن نہیں ۔

اسلام چونکہ منصفانہ معاشرہ قائم کرنے کا داعی ہے اس لیے قرآن وحدیث نے جہاں عبادات کے بارے میں اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل ضروری قرار دی ہے وہاں اپنی کاروباری سرگرمیوں کو بھی اللہ کے احکام کے تابع رکھنے کی تلقین کی ہے اور اس حوالے سے نہایت عمدہ اور جامع اصول عطاء کئے ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنی معیشت کو صحت مند بنیادوں پر استوار کر سکتے ہیں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ عصر حاضر میں مجموعی حیثیت سے امت مسلمہ اسلام کی معاشی وتجارتی تعلیمات سے بے خبر اور غافل ہے جس کی وجہ سے ہم معاشی میدان میں نہ صرف دین حق کی فیوض و برکات سے محروم ہیں بلکہ نوع بہ نوع مسائل میں گرفتار ہو چکے ہیں۔

 بلاشبہ مال و دولت اللہ تعالی کا خاص فضل اور اس کی قابل قدرنعمت ہے لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے دین نے اس مقصد کے لئے غلط اور نار واطر یقے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہر شخص کو حلال و جائز ذرائع استعمال کر نے کا مکلف ٹھرایا ہے اور یہ فکر دی ہے کہ روز قیامت ہر شخص کو یہ  حساب دینا ہوگا کہ اس نے مال کن ذرائع سے حاصل کمایا تھا ، حلال و جائز طریقے سے یا نا جائز اور حرام طریقے سے ۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

لَا تَزُولُ قَدْمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمْرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ مَاذَا عَمِلَ،  وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أُنْفَقَهُ، وَعَنْ جَسَدِهِ فِيمَا أَبْلاهُ

’’قیامت کے دن انسان کے قدم اٹھ نہیں سکیں گے یہاں تک اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے اپنی عمر کن کاموں میں لگائی ، اور علم کے مطابق کتنا عمل کیا ،اور مال کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا ، اور اپنے جسم کی تو انیاں کہاں کھپائیں ۔‘‘

کسب حرام شریعت کی نگاہ میں ایک ایسا گناہ ہے جس میں مبتلا شخص کی عبادت اور دعاء بھی بے اثر رہتی ہیں جیسا کہ اس حدیث مبارک سے عیاں ہے:

ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟

” پھر آپ سلام نے ایک شخص کا ذکر کیا جوطو یل سفر کرتا ہے پراگندہ اور غبار آلود بال اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اے رب ،اے رب کہتا ہے جبکہ اس کا کھانا حرام ، پینا حرام ،لباس حرام اور حرام سے ہی غذا دیا گیا پھر اس کی دعائیں کیسے قبول ہوں ۔

چونکہ حرام ذرائع سے حاصل مال کے باعث انسان کی ساری محنت و ریاضت رائیگاں چلی جاتی ہے اس لئے سرور کائنات ﷺ نے ایسے شخص کو سب سے بڑا عبادت گذار قرار دیا ہے

اس لیے آج کی معاشی دنیا میں نہ صرف غیر مسلموں بلکہ خود مسلمانوں کو ان کے بیش بہا علمی ورثہ سے آگاہ کرنا اور ان کے دل و دماغ کو آج کی معاشی دور کے ماحول میں اسلامی نظام معیشت کے قابل عمل ہونے پر قائل کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔

 


Comments