قانون سازی (Legislation) کا اختیار کس کو؟ بلاگ نمبر 26 عقیدہ بلاگ نمبر 02


قانون سازی (Legislation) کا اختیار کس کو؟

 

✒️از قلم :    اویس الرحمن متعلم الحکمۃ انٹرنیشنل



            قانون سازی (Legislation)کا اختیار صرف اللہ تعالی کی ذات کے پاس  ہے۔ جب تک کوئی شخص قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تعالی کی ذات کو نہیں دیتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ قرآن  پاک میں اس متعلق تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ جس کے بعد کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔  جو شخص بھی قانون سازی کا اختیار اللہ کے علاوہ بنی آدم میں سے کسی بھی انسان کو دیتا ہے وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے۔ کس طرح قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

 

                                                (سَیَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا لَوۡ شَآءَ  اللّٰہُ مَاۤ اَشۡرَکۡنَا وَ لَاۤ  اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمۡنَا مِنۡ شَیۡءٍ) سورۃ الانعام: 148

             "یہ مشرکین  ( یوں )  کہیں گے کہ اگر اللہ تعالٰی کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے ۔"

 

            (اَمۡ لَہُمۡ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوۡا  لَہُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا لَمۡ یَاۡذَنۡۢ بِہِ اللّٰہُ) سورۃ الشوری: 21

             "کیا ان لوگوں نے ایسے  ( اللہ کے )  شریک  ( مقرر کر رکھے )  ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے  ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں."

 

                                                (وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا عَبَدۡنَا مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ نَّحۡنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمۡنَا مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ)  سورۃ النحل: 35

            " مشرک لوگوں نے کہا اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے ،  نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے."

 

                                                (وَ لَا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا لَمۡ یُذۡکَرِ اسۡمُ اللّٰہِ عَلَیۡہِ  وَ اِنَّہٗ لَفِسۡقٌ ؕ وَ  اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِہِمۡ لِیُجَادِلُوۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ  اَطَعۡتُمُوۡہُمۡ  اِنَّکُمۡ  لَمُشۡرِکُوۡنَ) سورۃ الانعام: 121

             "اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے  اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں  اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے."

             یہ آیات اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ کی ذات کو ہے۔  جس  طرح انسانوں کو پیدا کرنا اور کائنات کو وجود بخشنا اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ خاص ہےتو قانون سازی کا اختیار بھی اسی ذات کو ہے جو خالق اور مالک ہے۔

                                                 (اَلَا لَہُ  الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ) سورۃ الاعراف: 54

"یاد رکھو خالق ہونا اور حاکم ہونا اللہ تعالی کے لیے ہی خاص ہے۔"

             حاکمیت اور بادشاہت صرف اللہ رب العزت کی ذات مبارکہ کے لئے ہے۔ انسان زمین پر اللہ تعالی کا نائب ہے اور اس کی شرعیت کا تابع ہے۔

                                                (و اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً) سورۃ البقرۃ: 30

" اور جب تیرے رب نے فرشتوں  سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔"

             دین اسلام میں حاکمیت کا مفہوم اس بات کے اعتراف کرنے میں ہے کہ زمین اور جو کچھ اس پر ہے، آسمان اور جو کچھ اس میں ہے سب اللہ عزوجل کی ملکیت ہے۔ اس کائینات کی تدبیر کرنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔ وہی اپنی مخلوق کے نفع و نقصان کو زیادہ جانتا ہے۔ دائرہ اسلام میں انسان کا اختیار صرف یہی ہے کہ وہ اللہ کا نائب ہونے کے ناطے اس کی شریعت کی پیروی کرے اور اس کو نافذ کرے۔ تاکہ عند اللہ ماجور حاکم بن سکے۔ خلافت راشدہ دو بندوں میں سے ایک کے ساتھ ثابت ہوتی ہے۔

1          :       اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا رسول ہے۔ جس پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالی کی کلام کی وضاحت اور اس کی مراد کو واضح کرتا ہے۔ لوگوں کو اللہ عزوجل کی شرعیت کے تابع ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالی کے قوانین کو مقاصد شرع کے تحت لوگوں پر نافذ کرتا ہے۔

2          :           دوسرا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کی شریعت کے تابع ہو۔ کتاب و سنت کو بنیاد بنا کر نبوی منھج کے مطابق اسلامی قوانین کا نفاذ کرتا ہو۔ اس کی حکومت بھی خلافت راشدہ کے حکم میں آئے گی۔

            ہر امت کے قوانین ان کی آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں اللہ تعالی نے مختلف انداز میں ذکر کیے ہیں۔ ان سب سے زیادہ شرعی قوانین کی وضاحت اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن پاک میں ہوئی ہے۔

            کوئی بھی شخص قانون سازی کا اختیار اللہ عزوجل کی ذات کو چھوڑ اس کے بندوں میں سے کسی کو دیتا ہے تو وہ شرک کرتا ہے۔ گویا کہ اسی بندے کو ہی اس نے رب بنا لیا ہے۔  کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ  ایک  مرتبہ عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔  اس وقت  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت کر رہے تھے۔

 

(اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ۚ وَ مَاۤ  اُمِرُوۡۤا  اِلَّا  لِیَعۡبُدُوۡۤا  اِلٰـہًا  وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰہَ  اِلَّا ہُوَ ؕ سُبۡحٰنَہٗ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ) سورۃ التوبۃ: 31

 "ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے  اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے."

 



            
 عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ اللہ نے جب یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تو کہنے لگے کہ ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بات اسی طرح نہیں ہے کہ جس چیز  کو اللہ تعالی نے حلال بنایا ہے تمہارے علماء اس کو حرام کہتے تو تم بھی اسے حرام سمجھتے تھے،  اور  جس چیز کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے تمہارے علماء اس کو حلال کہتے تھے اور تم بھی اس کو حلال سمجھتے تھے؟  میں  نے کہا کیوں نہیں یہ بات بالکل اسی طرح ہی ہے۔  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔

             اللہ تعالی ہر اس قانون کا انکار کرتے ہیں جو اس کے حکم سے نکل کر کیا جائے۔ چاہے اس قانون میں ظاہراً کتنی ہی خیر کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اللہ کی  شریعت کے علاوہ جو بھی قوانین ہوتے ہیں وہ صرف خواہشات، خیالات اور اصطلاحات ہوتی ہیں۔ جن کو انسان بغیر کسی دلیل کے خود ہی بناتے ہیں۔ جس طرح  دور  جاہلیت میں لوگ اپنی گمراہی اور لاعلمی کی وجہ سے اپنے خیالات اور خواہشات سے  قوانین بناتے تھے۔ موجودہ دور میں بھی شریعت کو چھوڑ  کر خود قانون سازی کرنا (افَحُکۡمَ الۡجَاہِلِیَّۃِ یَبۡغُوۡنَ)  میں آتا ہے۔

 

             اللہ تعالی ہمیں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنی شریعت کا تابع بنائے ( آمین)

 

📖الحکمةانٹرنیشنل لاہور پاکستان ،زندگی شعور سے🌍

 

 

  

Comments

  1. ماشاء اللہ، اچھی تحریر ہے۔
    دو نکات پر مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے:
    ۱۔ دور حاضر میں قانون سازی کا اختیار تمام ممالک میں انسانوں کے ہاتھ میں ہے تو ایسے ممالک میں رہنے والوں کو کیا کرنا چاہیے؟
    کسی ملک میں قانون سازی کا اختیار اللہ کو لوٹانے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
    والسلام مع الاکرام

    ReplyDelete

Post a Comment