راستے کے آداب و حُقوق, 66


راستے کے آداب و حُقوق

از قلم: محمد حنیف



اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسانیت کی راہنمائی کرتا ہے۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے حقوق وفرائض کا ایک جامع تصور اور نمونہ پیش کیا ہے۔

 اس دنیا میں انسان کو کئی انفرادی اور اجتماعی حقوق کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔

ان حقوق میں سے راستے کے حقوق بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ راستے کے حقوق کی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ رستےکو محفوظ و مامون بنایا جائے،ہر تکلیف دہ چیز رستے سے دور کی جائے۔ رستےکے حقوق کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ تکلیف دہ چیز کو رستےسے ہٹانا ایمان کا حصہ ہے۔ چناںچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ طیبہ یعنی لا الہٰ الاّ اللہ اورآخری راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری ومسلم)

اسلامی تعلیمات میں اخلاقی اقدار اور حقوق العباد کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، جس سے انحراف اور نافرمانی بدترین گناہ اور عذاب کا سبب ہے۔

راستے سے تکلیف دہ وناپسندیدہ چیزوں کا ہٹانا کوئی عام صدقہ نہیں، بلکہ یہ اتنا بڑا عمل خیر ہے جو انسان کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔ روایت کے مطابق راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی تو اس نے اسے راستہ سے ہٹا دیا، اس پر اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (بخاری ومسلم)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستے میں موجود ایسے درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابو طلحہؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک بار گھر کے سامنے بیٹھ کر باتیں کررہے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے، فرمایا تم لوگ راستے پر کیوں بیٹھ جاتے ہو؟اس سے بچو۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم ایسے کام کے لیے بیٹھے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہم تو آپس میں باتیں اور تبادلہٴ خیال کے لیے بیٹھے ہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا، اگر کرنا ہی ہے تو اس کا حق ادا کرو، وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو اور اچھی بات کرو۔(صحیح مسلم:۵۶۱۰)

یہ حدیث راستے میں یافٹ پاتھ پر مجلس جمانے کی ممانعت میں بالکل واضح ہے ، ضرورتاً بھی اس کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ اس کا موضوع فحش تبصرے ، غیبت اور شیخی کے بجائے امربالمعروف ونہی عن المنکر ہو، گزرنے والا کوئی بھی ہو ، اسے کسی بھی قسم کی تکلیف دینے سے باز رہا جائے۔

اگر ہم ان تمام امور کو اپنے موجودہ ترقی یافتہ دور میں دیکھیں تو آج رستے اور عوامی مقامات کافی ترقی کر چکے ہیں۔ جیسے فٹ پاتھ، پبلک پارکس،سڑکیں اور چوک چوراہے وغیرہ۔ ان کے بھی وہی حقوق ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ لہٰذ اٹریفک قوانین کی پاس داری شرعاً ضروری ہوگی،

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی یا راستوں پر کوئی ایسی حرکت جو راہگیروں کے لیے خطرے یا پریشانی کا باعث بنے، جیسے بہت تیز گاڑی چلانا، سڑک پر ریس لگانا، خطرناک طریقے سے اور ٹیک کرنا، بلا ضرورت تیز ہارن بجانا ، ریڈ سگنل کراس کرنا نہ صرف قانوناً، بلکہ شرعی اعتبار سے بھی قابل مواخذہ جرم ہے۔ موجودہ دور میں المیہ یہ ہے کہ ہم ان باتوں کو عام طور پر اہمیت نہیں دیتے، حالاں کہ حقوق العباد میں یہ تمام باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، ہمارے دین نے زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہ نمائی کی ہےاور ان پر عمل پیرا ہونا ہمارا دینی اورمعاسرتی فریضہ ہے۔

اسکالر تخصص فی الدعوۃ والإفتاء

📘الحکمةانٹرنیشنل لاہور پاکستان، زندگی شعور سے🌎

Comments