صبر کا مفہوم اور مقام صبر 72


صبر کا مفہوم اور مقام صبر

از قلم: انعام الرحمٰن 



                ’’صبر‘‘ كےلغوی معنی کسی خوشی، مُصیبت، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھنا، ایسے کاموں سے رکنا  جس پر رکنے کا شریعت تقاضا کررہی ہو ۔صبر کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان نے یہ مان لیا ہے کہ جو بھی مشکل یا تکلیف آئی ہے یہ  اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔  اب مجھے آہ و فغاں کی بجائے چیخ و پکار کی بجائے خود کو سنبھالنا ہے ۔ کیونکہ چیخ وپکار اور جزاں فزاں کا کوئی فائدہ  نہیں ہے ۔ ایک ذات ہے جو سب کچھ سنبھالتی ہے سارے اختیارات اس کے ہاتھ میں ہیں۔ میرے معاملات بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں اور میرے ساتھ جو بھی معاملہ پیش آیا ہے نقصان کی صورت میں یا مصیبت کی صورت میں یا کسی ناپسندیدہ حالت کی صورت میں وہ سب کچھ اللہ کی مرضی سے آیا ہے کیونکہ اللہ کی مرضی کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ہل سکتا

اسلام میں چوٹی کی چیز صبر ہے ۔ قرآن پاک میں کئی مقاما ت پر صبر کا ذکر کیا گیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِیْن﴾[انفال:46[

ترجمہ:صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔

مزید ایک جگہ یوں فرمایا:

(إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ) [الزمر: 10]

                                                "صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا اجر بلاحساب دیا جاتا ہے۔"

                انسان پر آنے والی آزمائشیں اور تکالیف  انفرادی اور اجتماعی ہر دو پہلوؤں کے اعتبار سے ہوتی ہیں ۔ اس لیے صبر بھی ان دونوں پہلوؤں پر لازم ہے ۔ایک فرد پر کسی تکلیف کا آنا یا پوری قوم کاکسی تکلیف میں چلے جانا صبر کا متقاضی ہے ۔ ایمان میں صبر کا مقام اسی طرح ہے جس طرح بدن میں سر کا مقام ہے۔صبر ہر خیر کی چابی ہے اور ہر شر اس سے نرم ہوجاتا ہے۔صبر کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اسلام میں  سب سے زیادہ صبر پیغمبروں رسولوں نے کیا ہے ۔ اور پھر جن لوگوں نے صبر کیا  قیامت کے دن بلند مقام ومرتبے پر فائز ہوگے۔

قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ، قَالَ: " الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَةُ "( شعب الایمان : 9260)

                "حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”الصبر والسماحة“یعنی :صبر اور نرمی کرنا" 

                صبرتین  چیزوں پرہوتاہے :

اول :          طاعت ونیکی پرصبر: انسان کا نفس نیکیوں سے بھاگتاہے، اور ان سے سستی اورکاہلی محسوس کرتاہے۔ اس کےباوجود نفس کو اللہ کی طاعت پرآمادہ کرنا اور اس پرقائم رہنا ،مشقت کے باوجود  نیکیوں کو احسن طریقےسے خالص اللہ کے لیے انجام دینا صبر ہے۔اسی طرح معاملات میں لوگوں کے ساتھ نرمی اورحسن اخلاق سے پیش آنا، ان کے حقوق کواداکرنا، ان کو تکلیف دینےسےپرہیزکرنا اور سارے معاملات  میں امانتداری اوردیانتداری کاثبوت دینا  وغیرہ  صبر کی بہترین مثالیں ہیں۔

دوم  :         محرمات پرصبر: گناہ اپنی جاذبیت کی بناپرانسان کے نفس کواپنی جانب راغب کرتاہے، ایسے وقت میں اس کے انجام وعواقب، اوراللہ رب العزت کی پکڑ کو پیش نظررکھ کرنفس کواس سے روکنا، زنا،بدکاری، چوری، ڈکیتی، خودکشی اوراس طرح کے تمام معاصی وگناہوں سے خودپرقابورکھنا بہترین صبرہے ۔

     گناہ ومعاصی سے صبر دیگر صبر کے مقابلے کچھ زیادہ ہی سخت ہے کیونکہ خواہشات وشہوات سے بچنے کے لیے آدمی کو نفس سے شدت کے ساتھ مجاہدہ کرنا پڑتاہے، اور اس لیے بھی کہ گناہ اپنی جاذبیت کے ساتھ اس پر عمل سہل  الوصول ہوتاہے، اور اس سے بچنے کے لیے اللہ کاخوف اور تقوی کے ساتھ ساتھ اس کے برے انجام کا ڈر بھی پیش نظر رکھنا پڑتاہے۔

سوم :       ابتلاءوآزمائش پرصبر:ابتلاء وآزمائش کےبطورانسان پرمختلف  راستوں سے   چھوٹی بڑی بے شمار مصیبتیں  آتی رہتی ہیں، جن پر صبر کیاجاتاہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ناطے صبر کے ساتھ اسباب اختیار کرنے کی بھی تلقین کرتا ہے ۔ کسی انفرادی آزمائش یاملی  بحران کی صورت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا  رہبانیت ہے ، جس سے اسلام نے منع فرمایا ہے ۔لہذا ہمیں چاہیے کہ صبر کے ساتھ اسباب کو بھی لازمی اختیار کریں تاکہ ہمارے انفرادی مسائل کے ساتھ ساتھ ملی  بحرانوں سے بھی نجات مل سکے ۔

Comments