غزوہ بدر اور رمضان المبارک 73

 

غزوہ بدر اور رمضان المبارک

از قلم : سیف الرحمٰن



                                                                                                                    غزوہ بدر اسلام کا پہلا غزوہ ہے ۔ غزوہ بدر سترہ رمضان المبارک کو پیش آیا ۔ یہ غزوہ اس اعتبار سے بے حد اہمیت کا حامل ہے  کہ یہ  غزوہ  مادی اسباب کی بجائے ایمان و توکل اور  حق و باطل کی بنیاد پر  پہلا غزوہ تھا ۔ غزوہ بدر میں تین سو تیرہ مسلمان شریک ہوئے جب کہ کفار کی تعداد ایک ہزار تھی ۔ جنگی سازو سامان کے اعتبار سے مسلمان انتہائی کمزور تھے چنانچہ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کی ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

            وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ

"اور بلاشبہ یقینا اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی، جب کہ تم نہایت کمزور تھے"

بدر کا دن حق اور باطل کے مابین فرق کا دن ہے ، اس لیے بدر کے دن کو یوم الفرقان بھی کہتے ہیں۔ جنگ بدر کا عجیب منظر تھا کہ بھائی بھائی کے خلاف، باپ بیٹے اور بیٹا باپ کے خلاف،بھانجا ماموں اور چچا بھتیجے کے خلاف نبردآزما تھا۔حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اپنے والد جراح کو، عمر فاروق ؓنے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعب ؓ نے اپنے بھائی عبید کو اور اسی طرح بہت سے صحابہؓ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور محبت نبوی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔

بدر کے اس خون ریز معرکے نے یہ ثابت کیا کہ تعلق کی بنیاد قبیلہ ، نسل ، زبان یا خاندان نہیں بلکہ تعلق کی بنیاد " لا الہ الا اللہ " ہے ۔ غزوہ بدر میں لسانیت ،قومیت اور وطنیت کے تمام بتوں کو زیریں کر کہ صرف نظریہ اسلام کو قائم رکھا گیا ۔  آج بھی اسی چیز کی ضرورت ہے کہ ہم لسانیت ، قومیت اور وطنیت کے تمام نظریوں کو بائے طاق رکھ کر صرف نظریہ اسلام کے لیے اپنے آپ کو یکجا کریں ۔ ہمارا لین دین ، تعلقات ، معاملات ، اتحاد و یکجہتی ، جنگ و جدل نظریہ اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔

 فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

 

 


Comments