اسلامی نظریہ حیات
اور موجودہ علماء کرام
از قلم: حافظ معیذ احمد
اسلام
ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، جو زندگی کے
تمام پہلوؤ ں میں انسانیت کی راہنمائی کرتا ہے ۔نماز و روزہ سے لے کر سیاست و معیشت
تک انسانی زندگی کے تمام مسائل کا حل اسلام میں موجود ہے ۔ اس نظریہ کی عملی شکل کے لیے اللہ تعالی نے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ کے بعد اسی مشن کو صحابہ و تابعین
اور آئمہ نے بحسن خوبی ادا کیا ۔
تقریبا
بارہ سو سال تک مسلمان غالب رہے ہیں۔
مسلمان اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر تسلیم کرتے رہے ہیں اور اس پہ عمل پیرا
ہوتے رہے ہیں ۔ گزشتہ دو، اڑھائی سو سال
سےمسلمان اپنے اس نظریہ حیات سے روگردانی کرتے چلے آ رہے ہیں ، چنانچہ اس کے بدلے
میں ذلت ، رسوائی اور ناکامی مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے ۔
مسلمانوں
کے حکمران دین اور سیاست میں تفریق کے قائل ہو چکے ہیں ۔ امت کے علمائے کرام جو پیغمبر کے وارث تھے ،
انہوں نے بھی اپنے آپ کو انفرادیت تک محدود کر رکھا ہے ، وہ اجتماعی معاملات میں امت کی راہنمائی سے قاصر ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے
ہیں کہ نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں لیکن
ان کا حل کہیں سے نہیں مل رہا ، کئی ایک فتنے جنم لے چکے ہیں جن کا ابھی تک سدباب نہیں ہو سکا۔ علمائے
کرام کے اس رویے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں :
🔹 علمائے کرام کو جدید
مسائل اور فتنوں سے روشناس ہی نہیں کروایا جاتا ۔
🔹 علمائے کرام کا نصاب تعلیم چند فروعی مسائل پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے ہی دین
اور حرف آخر سمجھا جاتا ہے ۔
🔹مسلک پرستی نے ہمیں اپنے
اصل ہدف اسلام کی ترویج سے ہٹا کر مسلک کی ترویج میں لگا دیا ہے ۔
Comments
Post a Comment