تقرب الٰہی کے ذرائع اور معاشرے پر اثرات 93


تقرب الٰہی کے ذرائع اور  معاشرے پر اثرات

تحریر✒️:

      اویس الرحمن ریسرچ سکا لر الحکمۃ انٹرنیشنل


إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ(الصحیح البخاری: 6502)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھے  بہت پسندہیں۔ جیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔

 

1:    اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اللہ تعالی کے دوست ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

 

( الَاۤ اِنَّ اَوۡلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ )سورۂ یونس: 62

سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا۔

 

2    اللہ تعالی کے نزدیک اولیاء کی بڑی عزت ہے۔ اس لیے ان سے دشمنی رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالی نے جنگ کا اعلان کیا ہے۔

 

3:     اس حدیث مبارکہ میں اللہ تعالی سے قرب کے ذرائع بتائے گئے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی ان میں سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ فرائض میں نماز، روزہ، حج، زکوۃ، امر بالمعروف و نہی عنہ المنکر نیز اللہ اور اس کے بندوں کے تمام واجبی حقوق داخل ہیں۔ ان تمام واجبات کی کامل ادائیگی اللہ تعالی کے دوستوں کی صفت ہے۔

 

4:     واجبات کی ادائیگی کے بعد اللہ تعالی کے قرب کا ایک ذریعہ نوافل کی ادائگی بھی ہے۔ شریعت اسلامی میں جو فرائض پائے جاتے ہیں اسی جنس کے نوافل بھی ہیں۔ جیسے نفلی نماز، نفلی روزہ، صدقہ اور نفلی حج وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نوافل اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے ساتھ فرائض کی تکمیل کا بھی ذریعہ ہیں۔

 

5:     نوافل کی نسبت اللہ تعالی کو فرائض زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی ادائیگی پر اجرو ثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔

 

6:      اللہ تعالی اپنے اولیاء سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔

 

7:    اللہ تعالی جس سے محبت کرتا ہے اس کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں کو اپنی مرضی سے چلاتا ہے۔ انسان کا پورا جسم اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح اللہ تعالی چاہتا ہے۔ اگر مذکورہ تمام اوصاف اجتماعی شکل اختیار کر جائیں تو پورہ معاشرہ اللہ تعالی کا دوست بن جاتا ہے۔ اس معاشرے کا نظام اسی طرح ہو جاتا ہے جس طرح اللہ تعالی چاہتا ہے۔ پھر اللہ تعالی ایسے معاشرے کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔


Comments